تصوف کے متعلق سوالات

  • Admin
  • Nov 16, 2021

اولیاء اللہ کی کیا پہچان ہے؟

جواب :

لفظ ولی اور ولایت کا لغوی معنی یہ بیان کیا گیا ہے کہ :

الولَاَءُ، وا لتَّوالِیْ ان یحصل شیئاَنِ فصا عدًا حصولًا لیس بینھما مالیس منهما ویستعار ذلک للقرب من حیث المکان ومن حیث النسبة ومن حیث الدین ومن حیث الصداقة، والنصرة والاعتقاد والولایة النصرة.

ولاء او توالی کا مطلب دو یا زیادہ چیزیں اس طرح موجود ہوں کہ ان کے درمیان کوئی غیر نہ ہو اور اس کلمہ کو قُرب کے معنی میں استعمال کیا گیا۔ یہ قرب مکانی اور نسبی، دینی، دوستی، مدد، عقیدہ کے معنی میں بھی استعمال ہوا۔

(علامہ ابوالقاسم الحسین بن محمد، الراغب الاصفهانی، (م502)، المفردات فی غریب القرآن، طبع کراچی، ص 533)، (الامام العلامه ابن منظور (م 630ھ-711ھ)، افریقی، لسان العرب، 15: 402)

الولی، المحب، الصدیق، النصیر، الغالب، القریب، الناصر المالک، المتصرف، المدبر، مقتدر.

محب، دوست، مددگار، غالب، قریب، مالک، متصرف، مدبر، مقتدر۔

(الامام، السید، ابوالفیض، محمد مرتضیٰ، الزبیدی، الحنفی، شرح تاج العروس، القاموس طبع بیروت، 10: 398)

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اولیاء کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللهَ لَاخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ. الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ. لَهُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ ط لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللهَ ط ذٰلِکَ هُوَ الفَوْزُ الْعَظِیْمُ.

(یونس، 10: 62-64)

’’سن لو اللہ کے دوستوں پر نہ خوف ہے اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔ وہ جو ایمان لائے اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہے۔ انہی کے لیے خوشخبری ہے، دنیوی زندگی میں اور آخرت میں، اللہ کی باتیں بدلا نہیں کرتیں، یہی بڑی کامیابی ہے‘‘۔

اولیاء اللہ کون ہیں؟

قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ میں اولیاء اللہ کی متعدد صفات کو بیان کیا گیا ہے۔ ان میں سے چند صفات کو ذیل میں درج کیا جارہا ہے:

1۔ اولیاء اللہ کی پہلی صفت ایمان ہے کہ وہ صاحبِ ایمان ہوں۔ ان کی ذہنی سوچ پختہ ہو کہ رسول اللہ ﷺ جو کچھ لائے اس پر دل سے حق اور سچ ہونے کا یقین کریں۔ عقل و حواس سے ماوریٰ جو حقائق کوئی نہ جانے اور اللہ کے بتائے سے صرف نبی جانے اور مخلوق کو بتائے، اس حقیقت کو سچ جانیں اور اس پر یقین کریں۔ مثلاً: اگر نبی فرمائیں کہ شکلِ انسانی میں آنے والا فرشتہ ہے جو تمہیں تمہارا دین سمجھانے اور بتانے آیا تھا تو اب اس حقیقت کو عقل سے معلوم کیا جاسکتا ہے اور نہ حواس سے، اس کا علم صرف نبی کے بتانے سے ہوسکتا ہے۔ بس نبی نے اللہ تعالیٰ، ملائکہ، انبیائے سابقین، کتب سابقہ کی تصدیق، جنات، قبرو قیامت، پل صراط، جنت، جہنم اور ان کے تفصیلی و اجمالی احوال، ماضی، حال اور مستقبل کے واقعات، امت کے عروج و زوال کی تفصیلات، قرب قیامت کے آثار، جنت و اہل جنت کے حالات اللہ کی تعلیم سے جانے اور اسی کے اذن سے دنیا کو بتائے۔ جس نے ان کو سچا جانا اور ان کا یقین کرلیا، وہ مومن ہے اور اولیاء کے اندر یہ کیفیتِ ایمان عام مومنین کی نسبت بدرجہ اولیٰ موجود ہوتی ہے۔

2۔ اولیاء کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ تقویٰ شعار ہوتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مروی حدیث پاک ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

ھم قوم تحابوا فی اللہ علی غیر ارحام بینهم ولا اموال یتعاطونها فوالله ان وجوههم لنور، وانهم لعلی منابر من نور، لا یخافون اذا خاف الناس ولا یحزنون اذا حزن الناس ثم قرأ ھذه الایة. اَ لَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللهَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ.

’’اولیاء اللہ وہ ہیں جو اللہ کے لیے آپس میں محبت کریں، اگرچہ ان میں رحم کے رشتے بھی نہ ہوں اور نہ کوئی مالی لین دین ہو۔ خداکی قسم ان کے چہرے نورانی ہوں گے اور وہ نور کے منبروں پر رونق افروز ہوں گے۔ جب لوگ تھر تھر کانپتے ہوں گے، انہیں کوئی خوف نہ ہوگا اور جب لوگ غمزدہ ہوں گے، وہ غم سے محفوظ و مامون ہوں گے۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی۔ انہیں کوئی خوف نہ ہوگا اور جب لوگ غمزدہ ہوں گے، وہ غم سے محفوظ و مامون ہوں گے۔

3۔ حضرت سعید بن جبیر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: اولیاء اللہ کون ہیں؟ فرمایا:

هم الذین یذکر الله برؤیتهم.

اولیاء اللہ وہ ہیں جن کے دیکھے سے اللہ یاد آجائے۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی: یارسول اللہ! اولیاء اللہ کون ہیں؟ فرمایا:

الذین اذا رئووا ذکر اللہ.

جن کے دیکھے سے اللہ یاد آجائے۔

(علامہ اسماعیل بن کثیر الدمشقی (م 774ھ)، تفسیر القرآن العظیم، 2/422، طبع لاهور)

4۔ حضرت ابوبکر الاصمؒ فرماتے ہیں :

اولیاء اللہ وہ ہیں جن کی ہدایت کا دلیل سے اللہ ضامن ہے اور اللہ کی عبادت اور اس کی دعوت کے وہ ضامن ہیں۔ جب بندہ ان صفات پر کاربند ہوتا ہے، وہ ولی اللہ ہوتا ہے اور جب بندہ ولی اللہ ہوجاتا ہے تو اللہ اس کا ولی ہوتا ہے اور یہی ہونا چاہیے، اس لیے کہ

لان القرب لا یحصل الامن الجانبین.

قرب دونوں طرف سے ہوتا ہے۔

5۔ متکلمین نے فرمایا اللہ کا ولی وہ ہے جس کا عقیدہ درست ہو، مبنی بر دلیل ہو:

ویکون بالاعمال الصالحة علی وفق ماوردت به الشریعة.

اور جس کے اعمال شریعت کے مطابق ہوں۔

(امام فخرالدین الرازی، التفسیر الکبیر، ج: 17، ص: 126)

6۔ اسی آیت (یونس: 62) کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:

ان من عباد اللہ عبادا ما هم بانبیاء ولا شهداء تغبطهم الانبیاء والشهداء یوم القیامة لمکانهم من الله تعالیٰ.

اللہ کے بندوں میں سے ایسے بندے بھی ہیں جو نہ انبیاء ہیں، نہ شہداء مگر قیامت کے دن اللہ کے ہاں ان کی عزت و مرتبہ کو دیکھ کر انبیاء و شہداء رشک کریں گے۔

عرض کی گئی :

یارسول الله! خبّرنا من هم وما اعمالهم فلعلنا نحبهم؟ قال: هم قوم تحابوا فی الله علی غیر ارحام بینهم ولا اموال یتعاطون بها، فوالله ان وجوههم لنور وانهم علی منابر من نور، ولا یخافون اذا خاف الناس ولا یحزنون اذا حزن الناس ثم قراء اَ لَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللهَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ.

ہمیں فرمائیں کہ وہ کون ہیں اور ان کے اعمال کیا ہیں کہ ہم ان سے محبت کریں؟ فرمایا: یہ لوگ وہ ہیں جو اللہ کے لیے آپس میں محبت کرتے ہیں، ان میں رحم (نسب) کے رشتے ہیں اور نہ کوئی مالی لین دین ہے۔ خدا کی قسم ان کے چہرے نورانی ہوں گے اور نورکے منبروں پر رونق افروز ہوں گے، جب لوگ ڈرتے ہوں گے، انہیں کوئی خوف نہ ہوگا اور جب لوگ غمزدہ ہوں گے، انہیں کوئی غم نہ ہوگا۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی: اَ لَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللهَ لَاخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ.

7۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

اولیاء الله قوم صفرالوجوه من السهر.

راتوں کے جگراتوں سے ان کے چہرے زرد.

عمش العیون من العبر

ان کی آنکھیں آنسوئوں سے تر

خمص البطون من الجوع

بھوک سے ان کے پیٹ سکڑے ہوئے

یبس الشفاه من الذوی۔۔۔

پیاس سے ہونٹ خشک۔

جب اللہ ان کا والی، وارث اور دوست ہوجاتا ہے تو یہ دنیا و آخرت کے خوف و غم سے آزاد ہوجاتے ہیں۔

لا خوف علیهم لان الله یتولاهم ولا هم یحزنون لتعویض الله ایاهم فی اولاهم واخراهم لانه ولیهم ومولاهم.

ان پر کچھ خوف نہیں، اس لیے کہ اللہ ان کا دوست ہے۔ نہ وہ دنیا میں غمگین ہوتے ہیں اس لیے کہ اللہ ان کو دنیا و آخرت میں صلہ دیتا ہے کہ وہ ان کا ولی و مولیٰ ہے۔

(امام قرطبی، الجامع الاحکام القرآن، 8: 228، طبع مصر)

8۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (حدیث قدسی) اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

من عادیٰ لی ولیًّا فقد اذنته بالحرب، وماتقرب الی عبد بشئی احب مما افترضتُ علیه، وما یزال عبدی یتقرّبُ الی بالنوافل حتی احببتهُ، فکنتُ سمعه الذی یسمع به، وبصره الذی یبصُرُ به، ویده التی یبطش بھا، ورجله التی یمشی بھا، وان سالنی لَاُعطِیَنّهٗ، ولئن استعاذنی لَاُعِیْذنّهٗ، وما ترددتُّ عن شیئٍ انا فاعله تَرَدُّدِی عن نفس المومن یکره الموت وانا اکره مساء تَهٗ ولا بُدّلهٗ منه.

’’جس کسی نے میرے ولی سے دشمنی کی، میں اُسے اعلان جنگ کرتا ہوں اور بندے کا میرا قرب حاصل کرنے کے لیے میں نے جو احکام اس پر فرض کیے ہیں، ان کے بجا لانے سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں اور میرا بندہ ہمیشہ نفلی عبادت کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، پھر میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور ا سکی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور پائوں بنتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر مجھ سے مانگے تو ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر مجھ سے پناہ مانگے تو ضرور اسے پناہ دیتا ہوں اور میں جو کرنا چاہوں اس میں مجھے کوئی تردد نہیں، جتنا تردد مجھے مسلمان کی جان سے متعلق ہوتا ہے۔ وہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور میں اس کی تکلیف کو ناپسند کرتا ہوں۔ حالانکہ اس سے اسے چارہ نہیں‘‘۔

9۔ حضرت ابوذر غفاریؓ نے عرض کی :

یارسول اللہ! الرجل یعمل العمل ویحمده الناس علیه ویثنون علیه به فقال رسول الله: تلک عاجلی بشریٰ المومن.

یارسول اللہ! ایک آدمی کوئی اچھا کام کرتا ہے اور لوگ اس پر اس کی تعریف کرتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ مومن کی فوری خوشخبری ہے۔ (مسلم)

10۔ اللہ رب العزت نے اولیاء اللہ کو ملنے والے انعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

لَهُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ ط لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللهَ ط ذٰلِکَ هُوَ الفَوْزُ الْعَظِیْمُ.

(یونس: 64)

ان کے لیے خوشخبری ہے دنیوی زندگی اور آخرت میں اللہ کی باتیں بدلا نہیں کرتیں، یہی بڑی کامیابی ہے۔

یعنی انہیں اچھے اچھے خواب آتے ہیں، فرشتے موت کے وقت انہیں خوشخبریاں سناتے ہیں، فرشتے کہتے ہیں:

السَّلَامُ عَلَیْکَ وَلِیَّ اللّٰهِ، اللّٰہ یقْرئکَ السَّلَام.

اللہ کے ولی تجھ پر سلام، اللہ تجھے سلام فرماتا ہے۔

فرشتے اولیاء کو اس حال میں وفات دیتے ہیں کہ وہ پاک صاف ہوتے ہیں اور فرشتے انہیں سلام کرتے ہیں، اللہ کی رحمت، جنت، رضا اور اجرو ثواب کی مبارکباد دیتے ہیں۔ اچھی تعریف خدا و خلق کی طرف سے۔ یہ اللہ کا کلام ہے اس کے خلاف ممکن نہیں۔

(القرطبی، الجامع للاحکام القرآن، 8: 229)

اچھے خواب جو مومن کے لیے خوشخبری ہے، فیضانِ نبوت کا انتالیسواں (39) حصہ ہیں۔ فرمایا:

فَمَنْ راٰی ذٰلک فلیخُبْرِبِهَا.

جو ایسے خواب دیکھے، وہ دوسروں کے آگے ان کا ذکر کرے۔

ومن رایٰ سواء ذلک فانما ھو من الشیطان لیحزنه فلیسنغث عن یساره ثلاثا ولیکبر ولا یخبربھا احدا. (احمد)

اور برا خواب شیطان کی طرف سے ہے تاکہ اسے غمگین کردے۔ اگر کوئی برا خواب دیکھے تو اُسے چاہیے کہ وہ بائیں طرف تین دفعہ تھوک دے اور اللہ کی بڑائی بیان کرے اور کسی سے بھی اس خواب کا ذکر نہ کرے۔

حضرت ام کریز کعبیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:

ذهبت النبوة وبقیت المبشرات.

نبوت ختم ہوگئی مبشرات باقی ہیں۔

وقیل المراد بذلک بشری الملائکة للمومن عنداختصاره بالجنة والمغفرة.

کہا گیا ہے اس سے مراد فرشتوں کا مرتے وقت مومن کو جنت اور بخشش کی خوشخبری سنانا ہے۔

جیسا کہ قرآن میں ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ. نَحْنُ اَوْلِیٰـٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰـوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ ج وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَھِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَ. نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ.

(فصلت، 14: 30-32)

’’جن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ مغموم ہو اور اس جنت پر خوشیاں منائو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا ہم تمہارے دوست ہیں، دنیوی زندگی میں اور آخرت میں اور تمہارے لیے اس جنت) میں وہ سب کچھ ہے جو تمہارا جی چاہے اور اس میں وہ سب کچھ ہے جو مانگو، یہ مہمانی ہے بخشنے والے مہربان خدا کی طرف سے۔

حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے :

ان المومن اذا حضره الموت جاءه الملائکة بیض الوجوه، بیض الثیاب فقالوا اخر جی ایتھا الروح الطیبة الی روح وریحان ورب غیر غضبان فتخرج من فمه کما تسیل القطرة من فم السقاء واما بشراهم فی الآخرة فکما قال تعالیٰ (لا یحزنهم الفزع الاکبر وتتلقاهم الملائکة ھذا یومکم الذی کنتم توعدون) وقال تعالیٰ (یوم تری المومنین والمومنات یسعی نورهم بین ایدیهم وبایمانهم بشراکم الیوم جنت تجری من تحتها الانهار خالدین فیها ذلک ھوالفوز العظیم) وقوله (لا تبدیل لکلمت الله) ای ھذا الوعد لا یبدل ولا یخلف ولا یغیر بل ھو مقرر، مثبت کائن لا محالة (ذلک ھوالفوز العظیم.)

مومن کے پاس جب موت آتی ہے تو اس کے پاس فرشتے حاضر ہوتے ہیں، نورانی سفید چہروں والے، سفید لباس والے اور کہتے ہیں: اے پاک روح! نکل خوشبوئوں و باغوں کی طرف اور رب مہربان کی طرف، تو روح اس کے منہ سے ایسے نکلتی ہے جیسے مشکیزے سے پانی کا قطرہ۔ رہ گئی ان کو آخرت میں خوشخبری تو جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’وہ بڑی گھبراہٹ ان کو پریشان نہیں کرے گی‘‘ اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے کہ یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا تھا۔ اور فرمان باری تعالیٰ ’’اور جس دن مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں دوڑتا ہوگا، تمہیں مبارک ہو آج کے دن، باغ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جن میں ہمیشہ رہیں گے، یہی بڑی کامیابی ہے) اور یہ جو فرمایا ’’اللہ کی باتیں بدلا نہیں کرتیں‘‘ یعنی یہ وعدہ نہ بدلے گا، نہ اس کے خلاف ہوگا، نہ تغیر ہوگا، بلکہ پکا ہے، ثابت ہے لازمی ہونے والا (یہی بڑی کامیابی ہے)۔

(علامه ابن کثیر دمشقی، م 774، تفسیر القرآن العظیم، 2: 424، طبع لاهور)

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی عبدالقیوم ہزاروی

 

سلاسل طریقت کے وجود میں آنے کے اسباب کیا ہیں؟

جواب :

اس کے تین بنیادی اسباب ہیں۔

1۔ جب احوال و معارف اور نکات کی کثرت ہو گئی تو اب ایک عام آدمی، عام سالک کے لئے دشوار تھا کہ وہ کس راہ پر چلے اور کس راہ کو ترک کرے چنانچہ اس کے لئے ضروری تھا کہ وہ ایک ایسے منظم طریقے کو اپنائے جس کو وہ زیادہ موزوں تصور کرتا ہے اور چونکہ انسانی طبائع میں اختلاف ہے، مثلاً ایک ذکر یا کوئی وظیفہ ایک شخص کو تو فائدہ پہنچاتا ہے مگر وہی ذکر دوسرے شخص کے لئے اتنا مفید نہیں ہوتا، اس لیے اولیاء کرام نے مختلف اوراد، وظائف کو مریدین و متوسلین کی فطری مناسبت کے لحاظ سے یکجا کر دیا کہ ایک جیسی فطری طبیعت کے تقاضے رکھنے والے اگر ان اوراد کو اپنائیں تو اپنے احوال کو پا سکیں اور دوسری فطری طبیعت کے تقاضے رکھنے والے ایسے وظائف کو اپنائیں تو اپنا راستہ تیزی سے طے کر لیں لہٰذا انسانی طبیعتوں کا اختلاف اور مختلف نفوس کے مزاج کا جدا جدا ہونا مختلف سلاسل طریقت کے وجود میں آنے کا ایک سبب بن گیا۔

2۔ راہِ طریقت و تصوف کا سفر کسی صاحب نظر کی صحبت اور کسی سلسلہ کے روحانی فیضان کے بغیر طے نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اس روحانی ضرورت کی تکمیل کے لئے بھی بہت سے لوگ از خود روحانی منازل طے کرنے کے لئے مشائخ سے منسلک ہو کر سلسلے قائم کرتے رہے اور یوں مختلف سلاسل وجود میں آتے گئے۔

3۔ سلوک طریقت کی تشکیل کا تیسرا سبب یہ ہے کہ اکثر مشائخ اور بعض قوی روحانی قوت رکھنے والے بزرگوں کے دل پر خصوصی وظائف القاء ہوتے ہیں، قرآن و سنت میں بیان کردہ مفید اذکار یا صحابہ و تابعین کے اشغال میں سے بعض ان پر منکشف ہوئے وہ بطور خاص کسی ذکر یا ورد کو اس روحانی مرض کے ازالے کیلئے مفید پاتے ہیں تو یوں ان اذکار کی تعلیم پانے والے اور اجازت لینے والے اس راہ پر چلنے لگتے ہیں تو ایک تو ان کے لئے راستہ آسان ہوتا ہے اور روحانی الجھن ختم ہوتی ہے اور یوں ایک نیا خانوادہ یا سلسلہ وجود میں آ جاتا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

 

کیا کرامت کے صدور کا اختیار ولی کے پاس ہوتا ہے‌؟

جواب :

کسی غیرنبی سے خارقِ عادت، مافوق الفطرت اور خلافِ عقل فعل کا صدور کرامت کہلاتا ہے۔ کرامت کا صدور اگرچہ بندے سے ہوتا ہے مگر اس کا فاعلِ حقیقی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی شخص کچھ چاہ بھی نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًاO

اور تم خود کچھ نہیں چاہ سکتے سوائے اس کے جو اللہ چاہے، بے شک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔

الدَّهْر، 76: 30

اور سورہ تکویر میں فرمایا ہے:

وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَO

اور تم وہی کچھ چاہ سکتے ہو جو اللہ چاہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔

التَّکْوِيْر، 81: 29

اس لیے جب عین فطرت اور عادت کے مطابق ہونے والے افعال کا صدور بھی بغیر حکمِ الٰہی کے ممکن نہیں تو خارقِ عادت واقعہ بغیر اذنِ الٰہی کے کیسے وقوع پذیر ہوسکتا ہے؟ اس لیے کرامت کا اذن بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور وہ جس کو جتنا چاہے اس میں اختیار عطا فرما دے۔ ارشادِ ربانی ہے:

قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَـنْـزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.

(اے حبیب! یوں) عرض کیجئے: اے اﷲ، سلطنت کے مالک! تُو جسے چاہے سلطنت عطا فرما دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تُو جسے چاہے عزت عطا فرما دے اور جسے چاہے ذلّت دے، ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے، بیشک تُو ہر چیز پر بڑی قدرت والا ہے۔

آل عِمْرَان، 3: 26

حدیثِ قدسی میں بیان کیا گیا ہے کہ نیک و صالح ہستیوں کو ان کی عبادت و ریاضت اور صالحیت کے سبب اس قدر قربِ خداوندی عطا ہوتا ہے کہ ان کا دیکھنا، سننا پکڑنا اور چلنا عین اطاعتِ خداوندی میں آجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اولیاء اللہ سے کرامات کا صدور ہوتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اس کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہوں اور میرا بندہ ایسی کسی چیز کے ذریعے قرب حاصل نہیں کرتا جو مجھے پسند ہیں اور میں نے اُس پر فرض کی ہیں۔ مزید فرمایا:

وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ المُؤْمِنِ، يَكْرَهُ المَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ.

اور میرا بندہ برابر نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ اور جب میں اُس سے محبت کرتا ہوں تو اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ سنتا ہے اور اس کی بصارت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ پکڑتا ہے اور اس کا قدم بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں ضرور اسے عطا فرماتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ پکڑے تو ضرور میں اسے پناہ دیتا ہوں اور کسی کام میں مجھے تردد نہیں ہوتا جس کو میں کرتا ہوں مگر مومن کی موت کو برا سمجھنے میں، کیونکہ میں اس کے اس برا سمجھنے کو برا سمجھتا ہوں۔

بخاري، الصحيح، كتاب الرقاق، باب التواضع، 5: 2384، رقم: 6137، بيروت: دار ابن كثير اليمامة

درج بالا تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے جس قدر چاہے اختیار عطا فرماتا ہے، کسی کو کم اور کسی کو زیادہ۔ ہم اس اختیار کا ناپ تول نہیں کرسکتے۔

اولیاء اللہ کے اس اختیار کی مثالیں قرآن و حدیث میں بےشمار مواقع پر بیان کی گئی ہیں۔ اختصار کی خاطر ان میں دو مثالیں درج ذیل ہیں:

حضرت سلمان علیہ السلام نے ملکہ بلقیس کا تخت لانے کا فرمایا تو وہاں موجود ایک جن نے اس کے لیے اپنے مقام سے اٹھنے تک کی مہلت مانگی لیکن آپ علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک شخص آصف بن برخیا نے پلک جھپکنے سے بھی پہلے وہ تخت لاکر آپ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ قرآنِ مجید میں یہ واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے:

قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ.

(پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا کچھ علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)، پھر جب (سلیمان علیہ السلام نے) اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ آیا میں شکر گزاری کرتا ہوں یا نا شکری، اور جس نے (اللہ کا) شکر ادا کیا سو وہ محض اپنی ہی ذات کے فائدہ کے لئے شکر مندی کرتا ہے اور جس نے ناشکری کی تو بیشک میرا رب بے نیاز، کرم فرمانے والا ہے۔

النَّمْل، 27: 40

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر بھیجا جس کا سردار حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا، پھر اچانک حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے خطبہ کے دوران پکارنے لگے:

يَا سَارِيَةُ الْجَبَل، يَا سَارِيَةُ الْجَبَل، يَا سَارِيَةُ الْجَبَل، ثُمَّ قَدِمَ رَسُولُ الْجَيْشِ فَسَأَلَهُ عُمَرُ، فَقَال: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هُزِمْنَا، فَبَيْنَمَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ سَمِعْنَا صَوْتًا يُنَادِي: يَا سَارِيَةُ إِلَى الْجَبَل ثَلاَثَ مَرَّاتٍ فَأَسْنَدْنَا ظُهُورَنَا إِلَى الْجَبَل فَهَزَمَهُمُ اللهُ تَعَالَى، وَكَانَتِ الْمَسَافَةُ بَيْنَ الْمَدِينَةِ حَيْثُ كَانَ يَخْطُبُ عُمَرُ وَبَيْنَ مَكَانِ الْجَيْشِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ.

اے ساریہ پہاڑ کی طرف دیکھو! اے ساریہ پہاڑ کی طرف دیکھو! اے ساریہ پہاڑ کی طرف دیکھو! پھر لشکر کا قاصد آیا تو حضرت عمر عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے دریافت کیا۔ وہ عرض گذار ہوا: اے امیر المومنین ہم شکست خوردہ ہو گئے، ہم اسی حالت میں تھے کہ ہم نے ایک آواز سنی، کوئی پکار رہا تھا: اے ساریہ پہاڑ کی طرف دیکھو، یہ بات اس نے تین بار کہی، تو ہم نے اپنی پشت کو پہاڑ کی طرف کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں شکست دیدی اور جس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ خطبہ دے رہے تھے، اس وقت مدینہ منورہ اور لشکر کی جگہ کے درمیان ایک ماہ کی مسافت تھی۔

صهيب عبد الجبار، الجامع الصحيح للسنن والمسانيد، 15: 333، الكتاب غير مطبوع

معلوم ہوا کہ کرامت اللہ تعالیٰ کا اپنے اولیاء اور نیک بندوں کو عزت و توقیر دینے کا نام ہے۔ جس کو جس قدر چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری

 

کیا علامہ اقبالؒ تصوف کے خلاف تھے؟ کچھ لوگ اس کی دلیل کے طور پر ان کی زندگی کے آخری خطوط دکھاتے ہیں۔

جواب :

علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ اخوت، مساوات، عزت نفس، خدا ترسی، امن و عافیت، فلاح و نجات، انسانیت کی بلندی اور اقدار انسانی کی معراج و رفعت ہیں اور ان سب کا سر چشمہ اور منبع شرع حضور پُرنور، رحمتِ عالم، نورِ مجسم، شفیعِ معظم، رسالتمآب صلی اللہ علیہ آلہ وسلم اور آئینِ حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم، دین اسلام ہے۔ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی زندہ و جاوید فکر میں سے ایک ان کا نظریہ تصوف ہے۔

اسلامی تصوف کے دو پہلو ہیں، ایک نظری اور ایک عملی۔ تصوف عملی درحقیقت سنت رسول مقبول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی انتہائی خلوص کے ساتھ پیروی کا نام ہے اور تصوف نظری دراصل نہ صرف توحید پر صدق دل سے ایمان لانے، بلکہ علم الیقین کے ساتھ ساتھ عین الیقین اور حق الیقین بھی حاصل کرنے کی صورت ہے۔ حضرت ابوسعید ابوالخیر رحمۃ اللہ علیہ نے جو تصوف کی تعریف میں کہا تھا:’’ تصوف یکسو نگر یستن ویکساں زیستن است‘‘ تو انہی دو پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا تھا۔ (حضرت مخدوم علی ہجویری اور تصوف، رانا غلام سرور)

گر ارض و سما کی محفل میں ’’لَوْلَاکَ لَمَا‘‘ کا شور نہ ہو

یہ رنگ نہ ہو گلزاروں میں، یہ نور نہ ہو سیاروں میں

عملی تصوف ایک لحاظ سے حضور پر نور شافع یوم النشور، فخر دو عالم، نور مجسم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی حیات مبارکہ کے ظاہری پہلو یعنی نبوت سے متعلق ہے اور نظری تصوف آپ کی نبوت اقدس کے معنوی پہلو یعنی ولایت سے وابستہ ہے۔ دونوں ہی حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی ذات والا صفات کے نور اقدس سے عبارت ہیں۔ تصوف کا ایک رخ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے اس رحمۃ اللعالمین ختم المرسلین صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے نقش قدم سے وابستہ ہے جسے دشمن بھی صادق و امین مانتے تھے اور قرآن مجید فرقان حمید جس کے اسوہ حسنہ کی یوں گواہی دیتا ہے:

’’وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ‘‘

اور تصوف کا دوسرا رخ غار حرا ’’لی مع اللہ‘‘ اور ’’قاب قوسین‘‘ کا عکس ہے جس کی حقیقت کا آئینہ حقیقت محمدیہ ’’کنت کنزا مخفیا‘‘ اور ’’لولاک لما خلقت الافلاک‘‘ سے ضیاء حاصل کرتا ہے۔ تصوف عملی نے اخلاص فی العمل سے حقیقی پاکیزگی یعنی نفس قالب اور روح کا سامان پیدا کیا اور تصوف نظری نے اہل حق کے قلوب میں عشق حق اور عشق رسول مقبول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے چراغ روشن کئے۔ یہ چراغ ’’يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ‘‘ اور’’قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ‘‘ کی کرنوں سے منور ہیں۔ حقیقت حال تو یہ ہے کہ:

ہر جزو کائنات کو ہے تیری احتیاج

ہوتا نہیں کسی کا گزارا تیرے بغیر

ارشاد ربانی ہے:

وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًاO

(الفرقان، 25 : 63)

’’خاص بزرگان الہٰی وہ ہیں جو زمین پر جھک کر چلتے ہیں اور جب جاہل انہیں چھیڑیں تو وہ بجائے جواب کے ان کو کہہ دیتے ہیں کہ اچھا خوش رہو‘‘۔

اور حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا فرمان اقدس ہے:

سمع صوت اهل التصوف فلا يومن علی دعائهم کتب عندالله من الغافلين.

’’جس نے اہل تصوف کی آواز سن کر ان کی دعوت کو قبول نہ کیا وہ اللہ جل مجدہ کے نزدیک غافلوں میں لکھا گیا‘‘۔ (حضرت مخدوم علی ہجویری اور تصوف، رانا غلام سرور)

حقیقت حال یہ ہے کہ تصوف مذہب کی روح ہے۔ شیخ الاسلام زکریا انصاری رحمۃ اللہ علیہ اسی سلسلے میں فرماتے ہیں:۔

التصوف هو علم تعرف به احوال تزکيه النفوس وتصفية الاخلاق وتعمير الظاهر والباطن لنيل السعادة الابدية موضوعه التزکية والتصفية والتعمير وغايته نيل السعادة الابدية.

’’یعنی تصوف وہ علم ہے جس سے تزکیہ نفوس، تصفیۃ الاخلاق، تعمیر ظاہر و باطن کے احوال کا علم ہوتا ہے تاکہ سعادت ابدی حاصل کی جاسکے۔ اس کا موضوع بھی تزکیہ، تصفیہ اور تعمیر ظاہرو باطن ہے اور اس کی غایت و مقصد سعادت ابدی حاصل کرنا ہے‘‘۔ (الرسالہ القشیریہ، ابوالقاسم القشیری)

اسی لئے بقول شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ

’’شریعت کو اپنے قلب کی گہرائیوں میں محسوس کرنے کا نام طریقت ہے لہذا تصوف اصل الاصیل پاکیزہ ترین تعبیر ہے‘‘۔

اک شرع مسلمانی اک جذب مسلمانی

ہے جذب مسلمانی سر فلک الافلاک

علامہ محمد اقبال اور نسبتِ بیعت :

’’ذکر اقبال رحمۃ اللہ علیہ‘‘ مولفہ عبدالمجید سالک سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نسبت بیعت کے قائل تھے اور سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت تھے۔ حضرت پیر جماعت علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نقشبندی علی پوری نے مئی 1935ء میں فرمایا:

’’اقبال نے راز داری کے طور پر مجھے کہا تھا کہ میں اپنے والد مرحوم سے بیعت ہوں۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے والد کے پاس ایک مجذوب صفت درویش آیا کرتے تھے اور وہ انہی سے بیعت تھے ان کا سلسلہ قادریہ تھا‘‘۔

حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو سلسلہ قادریہ سے بے پناہ عقیدت و محبت تھی۔ جس کا اظہار کئی مرتبہ فرمایا۔

’’اقبال نامہ‘‘حصہ اول میں سید سلیمان ندوی سے یوں رطب اللسان ہیں : 

’’خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مجدد الف ثانی نور اللہ مرقدہ کی میرے دل میں بہت عزت ہے مگر افسوس ہے کہ آج یہ سلسلہ بھی عجمیت کے رنگ میں رنگ گیا ہے۔ یہی حال سلسلہ عالیہ قادریہ کا ہے جس میں میں خود بیعت رکھتا ہوں۔ حالانکہ حضرت شیخ سید عبدالقادر محی الدین رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود اسلامی تصوف کو عجمیت سے پاک کرنا تھا‘‘۔

یہ خط عروس البلاد لاہور، داتا کی نگری سے 13 نومبر 1917ء کو تحریر کیا تھا‘‘۔ (اقبال نامہ، شیخ عطاء اللہ، مکتوب نمبر 35)

جبکہ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند ارجمند جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال اپنی تالیف ’’ زندہ رود حیات اقبال کا تشکیلی دور‘‘ میں اس طرح فرماتے ہیں:

’’معلوم ہوتا ہے کہ شیخ نور محمد، سلطان العارفین حضرت قاضی سلطان محمود رحمۃ اللہ علیہ اعوان شریف کے مرید تھے جو سلسلہ عالیہ قادریہ سے تعلق رکھتے تھے‘‘۔

اسی بناء پر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ بھی بچپن سے سلسلہ قادریہ میں بیعت تھے۔ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ جہاں اولیاء عظام اور صوفیاء کرام سے بے حد عقیدت و محبت رکھتے تھے وہاں آپ کے دل میں تحفظ و تکمیل شعائر اسلام کا بے پناہ جذبہ موجزن تھا۔

اس سلسلے میں ہفتہ وار ’’اخبار کشمیری، 14 جنوری 1913ء میں بشیر احمد ڈار‘‘ اور ’’اقبال ریویو، 1984ء‘‘ سے اقتباس ملاحظہ ہو:

’’اگر مذہبی پہلو سے اسلامی زندگی کو دیکھا جائے تو وہ قربانیوں کا ایک عظیم الشان سلسلہ معلوم ہوتا ہے۔ مثلاً نماز ہی کو لو، وہ بھی قربانی ہے۔ خدا نے صبح کی نماز کا وقت مقرر کیا کہ جب انسان نہایت مزے کی نیند میں ہوتا ہے اور جب بستر سے اٹھنے کو جی نہیں چاہتا، خدا کے نیک بندے اپنے مولیٰ و آقا کی رضا کے لئے خواب راحت کو قربان کر دیتے ہیں اور نماز کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ پھر نماز ظہر کا وہ وقت مقرر کیا جب انسان اپنی کاروبای زندگی کے انتہائی کمال کو پہنچا ہوا ہوتا ہے اور اپنے کام میں انتہائی مصروف ہوتا ہے۔ عصر کا وقت وہ مقرر کیا جب دماغ آرام کا خواست گار ہوتا ہے اور تمام اعضاء محنت مزدوری کی تھکاوٹ کی وجہ سے آسائش کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ پھر شام کو نماز مقرر کردی جب کہ انسان کاروبار سے فارغ ہوکر بال بچوں میں آخر بیٹھتا ہے اور ان سے اپنا دل خوش کرنا چاہتا ہے۔ عشاء کی نماز کا وقت وہ مقرر کیا جبکہ بے اختیار سونے کو جی چاہتا ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے دن میں پانچ مرتبہ مسلمانوں کا آزمایا ہے کہ وہ میری راہ میں اپنا وقت اور اپنا آرام قربان کرسکتے ہیں یا نہیں‘‘۔

حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا 31 اکتوبر 1916ء کا ایک خط ملاحظہ ہو:

’’لاہور کے حالات بدستور ہیں۔ سردی آرہی ہے۔ صبح چار بجے کبھی تین بجے اٹھتا ہوں پھر اس کے بعد نہیں سوتا سوائے اس کے کہ مصلے پر کبھی اونگھ جاؤں‘‘۔ (نقش اقبال، سید عبدالواحد)

عجب نہیں کہ مسلمان کو پھر عطا کر دیں

شکوہ سنجر و فقر جنید رحمۃ اللہ علیہ و بسطامی (رح)

 

شوکت سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود

فقر جنید (رح) و بایزید (رح) ترا جمال بے نقاب

جاوید نامہ میں فرماتے ہیں :

 

پاک مرداں چوں فضیل (رح) و بوسعید (رح)

عارفاں مثل جنید (رح) و بایزید (رح)

حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف ایک فلاسفر تھے بلکہ خوش نوا شاعر، مصلح ملت، مفکر اسلام، مبصر و ناقد اور عظیم المرتبت صوفی باصفا تھے۔ ان میں بصیرت و بصارت اور فراست و دانش بدرجہ اتم تھی۔ فلاسفر صحرائے حیرت میں تعقل و تفکر میں گم رہتا ہے اور اسے تحیر و درماندگی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا جبکہ عشق حقیقی کی وجہ سے بامراد ہوتا ہے اور نتیجتاً تجلی رب ذوالجلال کی ذات اقدس میں گم ہوکر ذکر حبیب صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے وصل حبیب صلی اللہ علیہ آلہ وسلم تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔

کافر ہندی ہوں میں، دیکھ میرا ذوق و شوق

لب پہ درود و سلام دل میں درود و سلام

 

ہر دو بمنزلے رواں ہر دو امیر کارواں

عقل بحیلہ مے برد، عشق برد کشاں کشاں

شاعر مشرق رحمۃ اللہ علیہ اپنے ابتدائی دور کے بارے میں اس طرح رقم طراز ہیں:

’’چار برس کی عمر سے میرے کانوں میں ان (حضرت ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’فتوحات مکیہ‘‘ اور ’’فصوص الحکم‘‘) کا نام اور ان کی تعلیم پڑنی شروع ہوئی۔ برسوں تک دونوں کتابوں کا درس ہمارے گھر میں ہوتا رہا۔ گو بچپن میں مجھے ان مسائل کی سمجھ نہ تھی تاہم درس میں ہر روز شریک ہوتا تھا‘‘۔ (انوار اقبال : بشیر احمد ڈار)

علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیم و تربیت میں تصوف کا رنگ بدرجہ اتم تھا۔ لندن میں بھی حصول تعلیم کے دوران آپ نے شمع تصوف کو ہر طرح سے فروزاں رکھا۔ مراقبات اور تہجد کے نوافل آپ کی زندگی کا معمول تھا۔

زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی

نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی

دراصل صوفی ہی حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے ہمدل و ہمزبان ہوکر چلتے ہیں۔

بیاتا کار ایں امت بسازیم

قمار زندگی مردانہ بازیم

 

چناں نالیم اندر مسجد شہر

کہ دل در سینہ مُلّا گدا زیم

 

فقر بخشی! باشکوہ خسرو پرویز بخش

یا عطا فرما خرد یا فطرت روح الامین

علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ جو عاشق رسول مقبول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم، دانائے راز، پہاڑوں سے بلند حوصلہ رکھنے والی ہستی، کامل و اکمل پیر رومی رحمۃ اللہ علیہ سے اس حد تک متاثر تھے کہ انہیں پیرو مرشد تسلیم کیا اور ان سے بے حد فیض حاصل کیا کیونکہ موصوف ممدوح نے قرآنی تعلیمات کو ایک مخصوص انداز میں مثنوی میں بیان کیا ہے جس کے وہ اپنے کلام میں بھی معترف ہیں:

پیر رومی خاک را اکسیر کرد

از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد

حضرت پیر رومی نور اللہ مرقدہ نے راہ طریقت میں مرشد و ہادی کی اہمیت اس طرح فرمائی ہے:

پیر راہ بگزین کہ بے پیر ایں سفر

ہست بس پر آفت و خوف و خطر

اسی لئے شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال نور اللہ مرقدہ نے ان کی اس طرح تقلید کی:

کیمیا پیدا کن از مشت گلے

بوسہ زن بر آستان کاملے

حقیقت حال یہ ہے کہ اسلامی معاشرت کا ہمہ جہتی محورو مرکز عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم ہے جو مسلمان کی زندگی کا مقصود و منتہا اور اول و آخر ہے۔

بمصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است

اولیاء کی خدمت میں نذرانۂ اقبال

٭ اعجاز الحق قدوسی، ’’اقبال کے محبوب صوفیاء‘‘ کے عنوان سے بیان کرتے ہیں۔ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے حضور، دانائے راز حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ آپ کی روحانی رفعت و عظمت اور دینی خدمات کے معترف ہوتے ہوئے اس طرح اسرار و رموز میں درج ذیل وجد آفرین اشعار پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں:

سید ہجویر مخدوم امم

مرقد اوپیر سنجر را حرم

 

عہد فاروق از جمالش تازہ شد

حق زحرف او از بلند آوازہ شد

 

پاسبان عزت ام الکتاب

از نکاہش خانۂ باطل خراب

 

خاک پنجاب از دم او زندہ گشت

صبح ما از مہر او تابندہ گشت

٭ اسی طرح ’’بانگ درا‘‘ میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ جنہیں ’’پیر سنجر‘‘ کہا جاتا ہے سے عقیدت و محبت کا اظہار اس طرح فرمایا ہے۔

دل بے تاب جا پہنچا دیار پیر سنجر میں

میسر ہے جہاں درمانِ دردِ ناشکیبائی

حقیقت حال یہ ہے جسے حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ اس طرح فرماتے ہیں:

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں

محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

٭ اسی طرح حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الہٰی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں بانگِ درا میں اس طرح نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں:

فرشتے پڑھتے ہیں جس کو، وہ نام ہے تیرا

بڑی جناب تیری، فیض عام ہے تیرا

 

تیری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی

مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا

 

شگفتہ ہو کے کلی دل کی پھول ہوجائے

یہ التجائے مسافر قبول ہوجائے

٭ ’’زبور عجم‘‘ میں حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ اپنے آپ کو مولانا روم اور حضرت شمس تبریز رحمہما اللہ کا رمز شناس فرماتے ہیں:

مرا بنگر کہ در ہندوستان دیگر نمی بینی

برہمن زادہ، رمز آشنائے روم و تبریز ست

اسی طرح ایک اور جگہ گل ہائے عقیدت پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

 

نہ اٹھا پھر کوئی رومی (رح) عجم کے لالہ زاروں سے

وہی آب و گل ایراں، وہی تبریز ہے ساقی

ایک اور جگہ فرماتے ہیں :

عطار رحمۃ اللہ علیہ ہو، رومی رحمۃ اللہ علیہ ہو، رازی رحمۃ اللہ علیہ ہو، غزالی رحمۃ اللہ علیہ ہو

کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی

٭ اسی طرح شیخ فخرالدین عراقی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت جامی کی خدمت اقدس میں ارمغان حجاز اس طرح نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں:

کہے شعر عراقی رابخوانم

کہے جامی زند آلش بجانم

 

ندانم گرچہ آہنگ عرب را

شریک نغمہائے سار بانم

٭ حضرت بو علی قلندر رحمۃ اللہ علیہ پانی پتی کے حضور اسرار و رموز میں اس طرح خراج عقیدت پیش کرتے ہیں:

باتو مگویم حدیث بو علی

در سواد ہند نام اوجلی

 

آن نوا بسیر ای گلزار کہن

گفت باما از گل رعنا سخن

 

خطہ ایں جنت آتش نژاد

از ہوای دامنش مینو سواد

حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ کے بارے بالِ جبریل میں فرماتے ہیں:

رہے نہ ایبک و غوری کے معرکے باقی

ہمیشہ تازہ و شیریں ہے نغمہ خسرو (رح)

٭ خواجہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں بالِ جبریل میں اظہار عقیدت اس طرح پیش کیا:

محو اظہار تمنائے دل ناکام ہوں

لاج رکھ لینا، تیرے ’’اقبال‘‘ کا ہمنام ہوں

٭ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے بالِ جبریل میں فرماتے ہیں:

حاضر ہوا میں شیخ مجدد (رح) کی لحد پر

وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار

٭ حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ کے بارے اسرار و رموز میں فرمایا:

تربتش ایمان خاک شہر ما

مشعل نور ہدایت مہر ما

٭ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ اسرار و رموز میں حضرت سید احمد رفاعی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

شیخ احمد (رح) سید گردوں جناب

کاسب نور از ضمیرش آفتاب

 

گل کہ می پوشد مزار پاک او

لا الہ گویاں دمد از خاک او

تاریخ تصوف کی مطالعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اہل تصوف حصول فیوض و برکات کے لئے اولیائے کاملین کے مزارات مقدسہ پر کسب فیض کے لئے حاضر ہوتے رہے۔ جس طرح امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار اقدس پر حاضری دی اور خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سید علی مخدوم ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر انوار پر چلہ کشی کی۔

شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال نور اللہ مرقدہ نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے یورپ جانے سے قبل حضرت محبوب الہٰی نظام الدین اولیاء زری زر بخش رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر انوار پر حاضری کا شرف حاصل کیا اور کہا:

چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے

شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو

 

فلک نشیں صفت مہر ہوں زمانے میں

تری دعا سے عطا ہو وہ نردباں مجھ کو

٭ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے دربار گوہر بار پر متعدد بار حاضری دی اور پروفیسر عبدالقادر کے بقول حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے خود انہیں فرمایا کہ ’’حضرت قاضی سلطان محمود کے ارشاد عالیہ کے مطابق وہ دہلی میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہٰی نور اللہ مرقدہ کے مزار پر انوار جوکہ مرجع خلائق ہے پر حاضر ہوئے اور وہاں پر عالم رویاء میں اشارہ ہوا کہ تمہارا فیض حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ہے۔ چنانچہ اس اشارہ پر عمل کرتے ہوئے حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار عالیہ پر حاضر ہوکر فیض یاب ہوئے۔

حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ، عارف کامل حضرت مولانا محمد ہاشم جان سرہندی سے اس طرح مخاطب ہوئے: ’’اس روحانی تجربے (مزار پر انوار حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ پر مراقب ہونے) کے بعد مجھے یہ معلوم ہوا کہ مزارات اولیاء فیضان سے خالی نہیں۔

مولانا عبدالمجید سالک نے ’’ذکر اقبال‘‘ اور ’’سرگذشت‘‘ میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی عقیدت کا ذکر کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو ہندوستان کے اولیاء کرام میں سے حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ سے بے انتہا عقیدت تھی۔ 1933ء میں جون کے مہینے میں انہیں خیال آیا کہ سرہند شریف کی زیارت کرنی چاہئے۔ چنانچہ انتہا درجے کے آرام طلب ہونے کے باوجود وہ شدید گرمی میں سرہند شریف گئے اور واپس آ کر یہ نظم لکھی جو ’’بال جبریل‘‘ میں موجود ہے۔

حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر

وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار

 

اس خاک کے ذروں سے شرمندہ ستارے

اس خاک میں پوشیدہ وہ صاحب اسرار

 

گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے

جس کے نفس گرم سے ہے گرمئی احرار

 

وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہباں

اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار

اور پھر آخر میں کس حسرت سے حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ سے ملتجی ہیں:

تو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ

ترے پیمانے میں ہے ماہ تمام اے ساقی!

حقیقت میں صوفی وہ ہے جس کے ایک ہاتھ میں قرآن مجید اور دوسرے ہاتھ میں سنت رسول مقبول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم ہو۔ نیز صوفی وہ بھی ہے جس کی گفتار و کردار میں فرق نہ ہو اور جو اخلاق کی تہذیب کا کام کرے۔ صوفیائے کرام رحمۃ اللہ علیہ نے درج ذیل دس مقامات کا انتخاب کرلیا ہے جو فقر کے لئے لازم و ملزوم ہیں :

توبہ

زہد

توکل

صبر

شکر

خوف

رجا

رضا

قناعت

فقر

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے درج بالا اقوال پر حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ من و عن پورے اترے ہیں۔ (کشف المحجوب)

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب کہا ہے:

ان الصفاء صفة الصديق ان اردت صوفيا علی التحقيق. (ايضاً)

’’بے شک صفا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی صفت ہے، اگر تو کامل و اکمل صوفی بننے کا ارادہ رکھتا ہے تو جس راستے کو انہوں نے اپنایا تو بھی اسے اپناکر کاملین و اکملین کے گروہ میں شمولیت اختیار کرلے‘‘۔

حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ خود تصوف کے رنگ میں ڈھل کر ایک عظیم صوفی باصفا ہوچکے تھے۔ اسی لئے ان کی عمیق نگاہوں نے دیکھا کہ تصوف رسم و رواج کا نام بن چکا اور حقیقی روح ختم ہوچکی ہے۔ اسی لئے انہوں نے فرمایا:

فقر را ذوق عریانی نہ ماند

آن جلال اندر مسلمانی نہ ماند

امت مسلمہ کو فقیر کی حقیقت سے آشنا کرتے ہوئے کہا:

بس آں قعرے کہ راند راہ را

بیند از خودی اللہ را

 

اندروں خویش جوید لا الہ

ورنہ از شمشیر گوید لا الہ

اسی طرح ایک اور مقام پر فقر کے بارے میں فرمایا:

چیست فقر اے بندگان آب و گل

یک نگاہ راہ بیں یک زندہ دل

 

باسلاطین در فقر مرد فقیر

از شکوہ بوریا لرزہ سریر

حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے بہت ہی متاثر تھے اسی لئے اپنی کتاب ارمغانِ حجاز اور بال جبریل میں ان کے متعلق فرماتے ہیں:

دگر بسد رسہ ہائے حرم نمی بینم

دل جنید (رح) و نگاہ غزالی (رح) و رازی (رح)

 

اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی

کہ ہوں ایک جنیدی رحمۃ اللہ علیہ و ارد شیری

’’ارمغان حجاز‘‘ میں شاعر مشرق رحمۃ اللہ علیہ نے عزت بخاری کا یہ شعر بالخصوص نقل فرمایا ہے:

ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنید (رح) و بایزید (رح) ایں جا

حقیقت حال یہ ہے کہ آج تصوف بے حقیقت نام ہو کر رہ گیا ہے۔ حالانکہ اس سے قبل یہ حقیقت ہی حقیقت تھی، جس کا کوئی نام نہ تھا۔ یعنی عہد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف صالحین رحمہم اللہ میں تصوف نام کا نہ تھا اس کا معنی مفہوم ہر شخص میں پایا جاتا تھا۔ اِس دور میں نام موجود ہے مگر معنی عنقا ہے۔ اُس وقت افعال و اعمال انتہائی پسندیدہ تھے مگر کسی قسم کا دعویٰ یا نام موجود نہ تھا۔ اِس زمانے میں دعویٰ اور نام کی بڑی شہرت ہے مگر اعمال و افعال کا کچھ علم نہیں۔ عارف کے لئے عالم ہونا ضروری ہے لیکن ہر عالم عارف نہیں ہوسکتا۔ یہی تصوف عین اسلام بلکہ حقیقت اسلام ہے۔ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی زبان مبارک کا ایک ایک لفظ گنجینہ حکمت و معرفت ہے اور تصوف کی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے تصوف کے نام پر دوکانداری چلانے اور سادہ لوح لوگوں کو مرید بنا کر لوٹنے والوں کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض‌ لوگوں نے انہیں‌ تصوف کے منکرین میں شامل کر دیا، حالانکہ آپ تصوف کے حقیقی علمبردار ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔